خشک سالی ایک طویل مدت میں بارش کی کمی ہے۔ پانی کے وسائل کی کمی کی وجہ سے فصلیں نہیں اگتی ہیں جس کے نتیجے میں قحط پڑ جاتا ہے۔ قحط بہت شدید ہو سکتا ہے۔ زمینی خرابی، سیلاب، زلزلے، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض وغیرہ خشک سالی اور قحط سالی کے اسباب میں شامل ہیں۔ اگر خشک سالی کو بارشوں کی کمی کے برابر سمجھا جائے تو خشک سالی کو قحط کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ طویل مدتی حالت جو غذائی اجناس کی شدید قلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسے قحط کہتے ہیں۔ قحط کو خوراک کی انتہائی کمی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خوراک دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ خوردنی اشیاء کی عدم دستیابی قحط کا معنی ہے۔ قحط کو انگلش میں (Famine) کہتے ہیں۔
قحط کا مطلب زراعت کا مکمل طور پر تباہ ہو جانا ہے۔ عام طور پر قحط کا اعلان اس وقت کیا جاتا ہے جب لوگ خوراک کی کمی کی وجہ سے بھوک سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ قحط کسی خطے یا ملک کی آبادی کے کافی تناسب میں شدید اور طویل بھوک ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شدید غذائی قلت، بھوک اور بیماریوں سے اموات واقع ہوتی ہیں۔ قحط عام طور پر چند مہینوں سے لے کر چند سالوں تک رہتا ہے۔ جنگوں اور وباؤں کی طرح قحط بھی قدیم زمانے سے آتے رہے ہیں۔ بہت سے قحط قدرتی وجوہات جیسا کہ خشک سالی، سیلاب، غیر موسمی سردی، آندھی، طوفان، فصل دوست کیڑوں کی کمی، ضرر رساں کیڑوں کی افزائش اور پودوں کی بیماریاں جیسے جھلساؤ کی وجہ سے آتے ہیں۔
قحط کی سب سے عام انسانی وجہ جنگ ہے۔ جنگ فصلوں کو تباہ کرنے کے علاوہ محاصرہ اور ناکہ بندی کی حکمت عملی کے طور پر نقل و حمل کے راستوں کی تباہی کے ذریعے خوراک کی تقسیم میں خلل ڈالتی ہے۔ مثال کے طور پر 1500ء اور 1700ء کے درمیان مشرقی یورپ میں جو قحط پڑا وہ بنیادی طور پر قدرتی وجوہات کے بجائے انسانوں کا نتیجہ تھا۔ فصلوں اور خوراک کے سامان کی جان بوجھ کر تباہی انیسویں صدی میں جنگ کا ایک عام حربہ بن گئی جس کا استعمال حملہ آور اور دفاع کرنے والی دونوں فوجوں کے ذریعے کیا گیا۔
خشک سالی اور قحط کے درمیان فرق بہت مبہم ہے۔ دونوں کے نتیجے میں بیماری کے وسیع اور تیزی سے پھیلنے کے ساتھ خوراک اور پانی کی فراہمی ناکافی ہوتی ہے۔ ممکنہ طور پر دونوں آفات کسی بھی ملک کی معاشی اور سماجی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔ 1980 کی دہائی تک زیادہ تر قحط کی بنیادی وجوہات کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں گیا تھا۔ اس کے برعکس زمانوں سے کچھ آگاہی کے باوجود یہ سوچنے کا ایک زبردست رجحان رہا ہے کہ قحط بنیادی طور پر خوراک کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو قحط اس طرح کی قلت کے ساتھ نہیں ہوتے انہیں عام طور پر قحط کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ واقع نہ ہو جائیں۔
خشک سالی لوگوں کو کئی طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی ہر انسان کے لیے ضروری ہے اور خشک سالی کے دوران پانی کے ذرائع کم ہو سکتے ہیں۔ پانی کی موجودگی کے بغیر لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے کسی اور جگہ سے کافی پانی لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فصلوں کی کاشت کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قدرتی طور پر فصلوں پر کافی بارش نہیں ہوتی ہے تو انہیں آبپاشی کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ آبپاشی اسی وقت ممکن ہے جب ڈیموں، دریاؤں، جھیلوں، ندی نالوں میں پانی یا زمینی پانی دستیاب ہو۔ خشک سالی کے دوران پانی کے یہ ذرائع کم ہو جاتے ہیں اور خشک بھی ہو سکتے ہیں۔ فصلوں کو سیراب ہونے سے روکتے ہیں اور ان کے مرنے کا باعث بنتے ہیں۔
واضح رہے کہ قحط سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کو جمع کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ وسیع پیمانے پر پائے جانے والے نظریہ کے برعکس زیادہ تر قحط میں اموات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی فاقہ کشی کا براہ راست نتیجہ ہوتا ہے۔ موت کی سب سے بڑی وجہ عام طور پر بیماری ہوتی ہے جو قحط کے سرکاری طور پر ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بنگال کے قحط میں مارچ اور نومبر 1943 کے نازک مہینوں کے درمیان فاقہ کشی سے اموات ہوئیں لیکن بعد میں اموات کی مجموعی شرح عروج پر نہیں تھی۔ دسمبر 1943 سے دسمبر 1944 کے عرصے میں زیادہ تر اموات ہیضے، ملیریا اور چیچک کی وجہ سے ہوئیں۔
قحط الرجال کا مطلب و معنی قابل اور لائق لوگوں کا کم ہو جانا ہے۔ قحط سالی کے بارے میں جان کر آپ قحط کا جملہ آسانی سے بنا سکتے ہیں اور قحط پر مضمون ایک جامع انداز میں تحریر کر سکتے ہیں۔