موسمیاتی تبدیلی سے مراد درجہ حرارت اور موسم کے نمونوں میں طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔ سورج کی سرگرمیوں میں تبدیلی یا بڑے آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں قدرتی ہو سکتی ہیں۔ لیکن 1800 کی دہائی سے انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلیوں کا بنیادی محرک بن گئی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تبدیلیاں کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز کو جلانے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔
فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو زمین کے گرد لپیٹے ہوئے کمبل کی طرح کام کرتی ہیں، سورج کی گرمی کو پھنساتی ہیں اور درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔ دنیا بھر کی طرح موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں زراعت کے شعبہ کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔
اہم گرین ہاؤس گیسیں جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین شامل ہیں۔ یہ گیسیں گاڑی چلانے کے لیے پٹرول کے استعمال یا عمارت کو گرم کرنے کے لیے کوئلہ جلانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر زمین کو صاف کرنا اور جنگلات کاٹنا بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ زراعت، تیل اور گیس کے کام میتھین کے اخراج کے بڑے ذرائع ہیں۔ توانائی، صنعت، نقل و حمل، کاشتکاری یا رہائشی عمارتیں بنانے کے لیے جنگلات کو کاٹنا گرین ہاؤس گیسوں کا سبب بننے والے اہم شعبوں میں شامل ہیں۔
موسمیاتی سائنس دانوں نے ظاہر کیا ہے کہ پچھلے 200 سالوں میں تقریباً تمام موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار انسان ہیں۔ انسانی سرگرمیاں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے گرین ہاؤس گیسوں کا سبب بن رہی ہیں جو کم از کم پچھلے دو ہزار سالوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ تیزی سے دنیا کو گرم کر رہی ہیں۔
زمین کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 1800 کی دہائی کے آخر میں (صنعتی انقلاب سے پہلے) کے مقابلے میں اب تقریباً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے۔ پچھلی دہائی (2011-2020) ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم رہی اور پچھلی چار دہائیوں میں سے ہر ایک 1850 کے بعد کسی بھی پچھلی دہائی سے زیادہ گرم رہی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بنیادی مطلب گرم درجہ حرارت ہے۔ لیکن درجہ حرارت میں اضافہ صرف کہانی کا آغاز ہے۔ کیونکہ زمین ایک نظام ہے جہاں ہر چیز جڑی ہوئی ہے۔ ایک علاقے میں ہونے والی تبدیلیاں باقی تمام علاقوں میں تبدیلیوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج میں اب دیگر کے علاوہ شدید خشک سالی، جنگلات میں آگ لگ جانا، سطح سمندر میں اضافہ، سیلاب، زیر زمین پانی کی کمی، قطبی برف پگھلنا، تباہ کن طوفان اور زوال پذیر حیاتیاتی تنوع شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی فصلوں کی کاشت کی صلاحیت، ہماری صحت، گھر، حفاظت اور کام کو متاثر کر سکتی ہے۔ چھوٹے جزیرے والے ممالک اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے لوگ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے سے دوچار ہیں۔ سطح سمندر میں اضافے اور کھارے پانی کی مداخلت جیسے حالات اس حد تک بڑھ چکے ہیں جہاں پوری برادریوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور طویل خشک سالی لوگوں کو قحط کے خطرے میں ڈال رہی ہے۔ مستقبل میں موسم سے متعلقہ واقعات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔
فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گذشتہ دو دہائیوں میں 12 فیصد بڑھ گئی ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک وجہ جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔ عام طور پر جب درختوں کو کاٹا یا جلایا جاتا ہے تو ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے جس کا اخراج ہو جاتا ہے اور فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور میں درختوں کی اہمیت اور شجر کاری کے فوائد کو سمجھ کر انسانی سرگرمیوں سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ اکثر ایک دوسرے کے بدلے استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کے الگ الگ معنی اور مطلب ہوتے ہیں۔ اسی طرح موسم اور آب و ہوا کی اصطلاحات میں بھی فرق ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اوسط حالات میں تبدیلی کی وضاحت کرتی ہے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی سے مراد پوری زمین پر اوسط طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔ ان میں گرمی کا درجہ حرارت اور بارش میں تبدیلیاں شامل ہیں نیز زمین کی گرمی کے اثرات جیسے:
- سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح
- پگھلتے ہوئے پہاڑی گلیشیئر
- گرین لینڈ، انٹارکٹیکا اور آرکٹک میں معمول سے زیادہ تیزی سے برف کا پگھلنا
- پھولوں اور پودوں کے کھلنے کے اوقات میں تبدیلیاں
زمین کی آب و ہوا مسلسل بدل رہی ہے۔ سائنسدانوں نے حال ہی میں غیر معمولی ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ 150 سالوں میں زمین کا اوسط درجہ حرارت بہت زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں یہ اضافہ گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی بہت تیز رفتاری سے ہو رہی ہے۔